ادبی شخصیات

احمد فراز

Ahmad Faraz

(1931-2008)

 اسلام آباد

بے انتہا مقبول پاکستانی شاعر، اپنی رومانی ور احتجاجی شاعری کے لئے مشہور

نام سید احمد شاہ اور فراز تخلص ہے۔۱۴؍جنوری ۱۹۳۱ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔آبائی وطن کوہاٹ ہے۔ایڈورڈ کالج پشاور اور پشاور یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ ایم اے(اردو) اور ایم اے (فارسی) تک تعلیم حاصل کی۔ادبی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں ہوا۔ کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کرچکے ہیں،مگر بنیادی طور پر یہ غزل کے شاعر ہیں۔ان کا شمار موجودہ دور کے بہترین غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔احمد فراز کو کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ چند نام یہ ہیں:آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ(انڈیا)، اکیڈمی آف اردو لیٹریچر ایوارڈ(کینیڈا)، ٹاٹا ایوارڈجمشید نگر(انڈیا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ادب(شاعری)میں نمایاں کارکردگی پر ہلال امتیاز۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’تنہا تنہا‘، ’دردآشوب‘، ’نایافت‘، ’جاناں جاناں‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’بے آوازگلی کوچوں میں ‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’پس انداز موسم‘، ’خواب گل پریشاں ہے‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘(منظوم تراجم)، ’غزل بہانہ کروں‘، ’کلام کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘(انتخاب وتلخیص)، ’اے عشق جنوں پیشہ‘۔ کلیات احمد فراز ’’شہرسخن آراستہ ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوگئی ہے۔
احمدفراز نے شوکت عزیز اورجنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں حکومت کی پالیسی سے ناخوش ہوکر ’’ہلال امتیاز‘‘ واپس کردیا۔۲۶؍اگست ۲۰۰۸ء کو اسلام آباد میں انتقال کرگئے۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:252


پروین شاکر

pictrglry_main_photo

( 1952-1994)

کراچی

پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں شامل ، عورتوں کے مخصوص جذبوں کو آواز دینے کے لئے معروف

ان کا نام سیدہ پروین شاکر تھا۔ ابتدا میں ان کا تخلص بینا تھا، بعد ازاں پروین اختیار کیا۔ ۲۴؍نومبر۱۹۵۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا آبائی وطن حسین آباد ، شیخوپورہ، بہار ہے۔۱۹۶۸ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ انگریزی میں داخلہ لیا اور وہیں سے انگریزی ادب اور لسانیات میں ایم اے کیا۔وہ سرسید گرلز کالج اور عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی کی استاد رہیں۔۱۹۸۱ء میں پروین نے سی ایس ایس کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ اس کے بعدانھوں نے لاہور میں اسٹاف کالج کی ٹریننگ حاصل کی۔ ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد کسٹم اینڈ ایکسائز کے محکمے میں ڈپٹی کلکٹر کسٹم کے عہدے پر فائز رہیں۔
وہ شہر کے ادبی پروگراموں اور مشاعروں کے ساتھ ساتھ ریڈیو کے بزم طلبہ کے پروگراموں میں حصہ لیتی رہیں۔ ان کی شادی ان کے اپنے کزن ڈاکٹر نصیر سے ہوئی، لیکن یہ شادی انھیں راس نہ آئی اورکچھ عرصے بعد علیحدگی ہوگئی۔۲۶؍دسمبر ۱۹۹۴ء کو اسلام آباد میں ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئیں۔ وہ ایک ہونہار شاعرہ تھیں۔ انھوں نے عورت کے جذبات کو بڑی خوبصورتی سے غزل کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’خوش بو‘‘، ’’خود کلامی‘‘، ’’انکار‘‘، ’’صدبرگ‘‘۔ ’’ماہ تمام‘‘کے نام سے ان کی کلیات بھی شائع ہوگئی ہے۔ انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:412


جون ایلیا

224975_119533794793803_7847077_n

(1931-2002)
کراچی
پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور
نام سید جون اصغر اور تخلص جون تھا۔۱۴؍دسمبر ۱۹۳۱ء کو ایک علمی وادبی خاندان بھارت کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ رئیس امروہوی اور سید محمد تقی ا ن کے بڑے بھائی تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شفیق حسن ایلیا کی سرپرستی میں حاصل کی۔ادیب کامل(اردو)، کامل(فارسی) ، فاضل(عربی) کے امتحانات پاس کیے۔اردو ، فارسی اور عربی زبانوں پر جون ایلیا کو یکساں عبور حاصل تھا۔ ۱۹۵۷ء میں بھارت سے ہجرت کرنے کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی۔۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۸ء تک اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان کے شعبہ تالیف کے نگراں رہے۔ ۱۹۶۸ء میں اردو ڈکشنری بورڈ سے وابستہ ہوئے۔ ۱۹۷۰ء میں انھوں نے زاہدہ حنا سے شادی کی۔ دونوں مل کر ایک عرصہ تک ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ نکالتے رہے۔ بعد میں دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔۸؍نومبر ۲۰۰۲ء کو کراچی میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ تاریخ ، فلسفہ اور مذہب ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’ شاید‘(شعری مجموعہ)، ان کی زندگی میں چھپ گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے تین مجموعے’یعنی‘، ’گمان‘، اور ’لیکن‘ شائع ہوئے ہیں۔ وفات سے قبل زاہدہ حنا کے نام لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ ’’تمہارے نام ‘‘ کمپوز ہوا رکھا تھا۔ انھوں نے ’جوہر صقلی‘، ’کتاب الطواسین‘(ازمنصورحلاج) کے ترجمے کیے ہیں، مگر ان کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ پاکستان گورنمنٹ نے انھیں حسن کارکردگی کے تمغے سے نوازا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:260


تبصرہ کریں